بے سمت قوم کے مسائل ۔ امجد پرویزساحل

چند ماہ پرانی بات ہے سندھ کی ایک لڑکی سیما نے پب جی گیم سے دوست بننے پر ایک بھارتی لڑکے سچن کو ملنے نیپال کے راستے انڈیا چلی گئی۔ سیماتین چار بچوں کی ماں تھی جس کا پاکستانی شوہر مزدور ی کی خاطر ملک سے باہر تھا۔لڑکی کی دوستی ایک بھارتی ہندو لڑکے سچن سے ہوگئی۔ دیکھنے کو تو یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا جب لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں توایک ساتھ رہنے کی قسمیں وعدے کر لیتے ہیں بعد میں وہ سکھی رہیں یا ایک دوسرے کے بال نوچیں یہ بعد کا معاملہ ہے اور قصہ ختم۔
چند ماہ پہلے بھارتی کی ایک لڑکی جس کی فاٹا کے ایک لڑکے ساتھ انٹر نیٹ پر دوستی ہوگئی اور لڑکی شادی شدہ تھی اور تین چار بچوں کی ماہ تھی لیکن اس کو شادی کے بعد کوئی پسند آگیا اس نے اپنا گھر بار چھوڑا اور ویزہ لے کر پاکستان آگئی اور وہی قسمیں وعدے اور پھر قصہ ختم۔
اب کچھ مہینوں کے بعد بھارت کے ایک مشہور اداکار عامر خان کی بیٹی ارہ خان نے اپنے جم کے ایک ہندو ٹرینر کے ساتھ شادی کر لیں اور دنوں نے ریاستی قانون کے تحت عدالتی نکاح کر لیا جس میں لڑکی کے والدین یعنی عامر خان اور اس کی سابق اہلیہ نے بھی شرکت کی سب لوگوں کی رضامندی سے ہوا اور قصہ ختم۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے لیکن ہمارے ہاں جیسا کہ ہمارے مزاج میں شامل ہے کہ بس ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ“ جیسی صورت حال۔ کہ کیوں،کب،کیسے وغیرہ وغیرہ۔
یعنی دنیا میں کچھ ہو تو رونگھٹے ہمارے کھڑے ہو جاتے ہیں، سعودی عرب ہو یا افغانستا ن ہو۔یعنی ہمارے نادیدہ مسائل بالکل ہی انوکھے ہیں۔ مطلب دنیا کی امامت کا جنوں ایسا ہے کہ دنیا گھاس نہیں ڈالتی اور ہم ہیں بس کچھ نہ پوچھیں یعنی وہی چند ہفتوں کا بخار نہیں اترتا۔اُدھر ہمارے نجی ٹی وی چینلز، یوٹیوب یعنی سوشل میڈیا، بلاگ،وی لاگ مطلب ہر طرف ایک شور، ایک وایلہ کہ جیسے پتا نہیں کیا قیامت آگئی۔
مطلب سیما بھارت کیوں چلی گئی اور ایک ہندو سے شادی کیوں کر لی، فاٹا نے بھارتی لڑکی سے شادی کر کے بدلہ لے لیا اور عامر خان دائرہ اسلام سے خارج اور اس کی بیٹی نے ایک ہندو سے شادی کیوں کر لی۔ یار یہ ہیں ہمارے بنیادی مسائل؟
حیران ہوں کہ دنیا کہاں سے کہاں چلی گی اور ہم وسیم اکرم کے بغل کے بالوں میں پھنسے ہوئے ہیں مطلب دوسروں کے نجی معاملات میں اس قدر گھس چکے ہیں کہ اپنی کوئی خبر ہی نہیں۔ بلخصوص پچھلی چار دہائیوں سے ملک معاشی بدحالی کی خطر ناک ترین صورت حال سے گزر رہا ہے۔ امریکہ کی امداد اور قرض پر چل رہا ہے۔ ملک کی تجوری میں خیرات اور امداد کے پیسے پڑے ہوئے ہیں جس کوبے دریغ ذاتی اللے تللوں میں اُڑیا جارہا ہے مطلب اگر یہ کسی کی مہربانی ہی سہی لیکن اس کا استعمال تو ملکی بہتری کے لیے کرلو نہ بھئی۔
ہم نے دنیا کو سوائے دکھ کے کچھ نہیں دیا ہے۔ پڑوسیوں سے تھوڑی عقل نہیں مانگ سکتے تو نقل ہی مار لیں۔ ایکسپورٹ سوائے بچوں کے اورانتہاپسندی کے کچھ نہیں کیا۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ دنیا ہمارے مزدور بھی اپنے ملکوں سے نکال رہی ہے۔ لیکن ہمارے مسائل، مسلمان لڑکی نے ہندو لڑکے سے شادی کیوں کر لی اور ہندو لڑکے نے مسلمان سے شادی کر کے ملک کی عزت میں اضافحہ کر دیا ہے اور دنیا ہماری اہانت کیوں کر تی ہے۔ بھئی بات ہی آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ ایک ارطرغل خان یواین جاکر بجائے اپنی معاشی مسائل اور امن اور سلامتی کے مسائل پیش کرتا اسلامو فوبیا بیان کر کے آگئے دوسرے ملک میں سڑکیں،پل اور بلڈنگ میٹریل بیچنے میں مصروف ہیں۔
مطلب ملک کے مسائل کیا ہیں یا توکسی کو پتہ نہیں یا سامنے لانا نہیں چاہیے۔ آپس کی ناچاکیا ں ہمارے کرنٹ افئیرز بنے پڑے ہیں۔ذاتیات ہمارے چینلز میں موضوع بحث ہیں۔ بنیادی مسائل اور انسانی حقوق کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ بزنس برادری کو فسلی ٹیٹ کیسے کرناہے؟ کسان کو ریلیف کیسے دینا ہے؟ آئی ٹی سیکٹر کو کیسے آگے لیکر آنا ہے، ایکسپورٹ کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟ امن اور سلامتی کیسے بہتر ہوسکتی ہے تاکہ باہر کا انویسٹر آئے، پبلک سیکٹر کے ادارے کیسے بہتر ہو سکتے ہے؟ مطلب،تعلیم،صحت اور روزگار جیسے مسائل سے کیسے نمٹا جائے۔ غربت خیرات سے نہیں تعلیم و ہنر سے بہتر ہوسکتی ہے۔ آبادی کو کنٹرول کرنے سے اور موجودہ مین پاور کو ہیومن ریسور س مینجمنٹ سے کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔ اللہ پر توکل اچھی بات ہے لیکن بارش پڑے تو چھتری اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں بارش کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اُس وقت ہوگا جب مسائل موضوع بحث ہونگے۔اصل مسائل نہ سیماکی شادی،عامر خان کی بیٹی کی شادی اور وسیم اکرم کے بغل کے بال نہیں بلکہ روٹی کپڑا اور مکان ہیں۔ ریاست کو سرکاری سطح پر شعور بانٹنے کی ضرورت ہے، سارے مسائل حیاڈے کے منانے سے حل نہیں ہوسکتے۔ عملی کام اور عملی منصوبے زیر بحث لانے سے ہونگے۔ پاکستان پائندہ باد۔

Leave a Comment

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *