گذشتہ روز لاہور کے شہر اچھرہ میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا جہاں ایک خاتون نے عربی رسم الخط میں لکھے گئے کچھ الفاظ والا لباس پہنا ہوا تھا ویسے تو یہ ایک خطاطی والا ڈیزائن تھا جس میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس پر اسقدر ری ایکشن دیا گیا لیکن یہاں کہانی کچھ اور ہے دراصل ہم بحثیت معاشرہ اس قدر ستائے ہوئے لوگ ہیں کہ پیٹ کی بھوک نے ہمارے لہجے تلخ کر دیے ہیں ہم کبھی رونے کے تو کبھی مرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں غربت، ناانصافی، جہالت، معاشی بدحالی نے ہماری اس قدر مت ماری ہوئی ہے کہ ہم اِس کو بھی خدا کا کوئی عذاب یا پھر آزمائش سمجھ بیٹھے ہیں۔ہماری مذہبی قیادت ہمیں اس محرمی سے نکلنے ہی نہیں دے رہی،تبھی تو درباروں اور مزاروں کی تعداد زیادہ ہوش رُبا اضافحہ اور تعلیمی ادارے کم ہو رہے ہیں۔ محنت، دولت، تقسیم اور علم کی طلب پر پہرے بٹھا دئیے گئے ہیں۔ بے ایمانی،کم تولنا اور جھوٹ ہمارےمعاشرے کی بدعت اختیار کر چکے ہیں پس ایسی صورت حال میں ہمارا معاشرہ چھوٹی چھوٹی بات پر مارنے نہ دوڑے تو کیا کرے۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ہم بُری طرح کنفیوژ معاشرہ بن چکے ہیں۔ کل میرے پاس ایک شخص آیا جسے کسی نےبتایا کے میرے پاس  کوئی جاب مل سکتی ہے۔ میرا تعلق چونکہ آئی ٹی سے ہے تو بہت سے لوگ میرے پاس اپنے بچوں کے مستقل کےحوالہ سےمشورے کرنے آجاتے ہیں کہ نوکری یا پھر اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کیسے کیا جا سکے۔ اُس شخص نے بھی نہایت افسردہ لہجے میں اپنی روداد سناتے ہوئے معاشرے کی اشرافیہ کو کوسنا شروع کردیا ہے۔ کسی دور میں وہ پاکستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار کا میں نمائندہ ہوا کرتا تھا۔ پریشانی میں مجھے کہنے لگا۔ ”ہم سے تو وہ لوگ اچھے ہیں جو بے ایمانی کرتے ہیں، ہم نے اپنا وقت ایمانداری سے گزارہ ہے اس لیے شاید اس لیے آج ذلیل ہور ہے ہیں“ مزید کہنے لگا کہ اگر ہم نے بھی اپنے وقت میں بلیک ملنگ کی ہوتی تو ہمارے ایسے بُرے حالات نہ ہوتے؛ اس کا سیدھا سدھا مطلب ہے کہ  ہم اچھائی سے مکمل طور پر بیزار ہو چکے ہیں۔ہمارے ملک میں ھیرو بننے کا رواج ختم ہو چکا ہے اب ہر کوئی ولن بننا چاہتا ہے ہر کوئی یہ  دیکھتا ہے کہ بے ایمان، ملاوٹ خور، جھوٹ، بد معاش خوش حال ہے اور ہم ایماندار اور شکر بسر کرنے والے بد حال۔ہمارے معاشرے کا جیسے ایماندار ی سے جی اٹھ گیا ہے۔ اب وہ منافقت سے تو زندہ رہنا چاہتا لیکن ایماندار ی سے نہیں۔ کیونکہ وہ جہاں جاتا ہے اُسے ایسے لگتا ہے جیسے اسے نوچا اور کھایا جارہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اچھرے جیسے واقعات عام پیش آتے، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ماضی میں ناجانے کتنے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ہم بری طرح پھنس چکے ہیں یا ہمیں پھنسا دیا گیا ہے اب ہمارا اس بے یقینی کے چنگل سے نکلنا لگ بھگ مشکل ہوچکا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمیں ایماندار نظر آجائے تو ہم اُسے پھولوں کے گلدستے پیش کرتے ہیں، اُسے بہادری کے اعلٰی ایوارڈ دیتے ہیں کیونکہ ایماندار ہی ناپید ہو چکے ہیں۔ دور دور تک کوئی ایماندار ہی نظر نہیں آتا۔کوئی مثال بھی تو نہیں ملتی اور اس پر ہم شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔پچھلے سال کراچی میں ایک شخص کو اقرار الحسن بھائی نے گدھے کا گوشت بیچتے رنگ ہاتھوں پکڑلیاتو وہ شخص شرمندہ ہونے کی بجائے دلیل دینے لگ گیا مطلب مذہبی ٹچ۔ یعنی ہمارے پاس بےایمانی پربھی جواز اور ناانصافی پر دلیلیں موجود ہیں۔
آج کسی جگہ کوئی کہہ رہا تھا کاش ہمارے ملک میں حضرت عمر کا دور آجائے، خواہش تو چھی ہے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ہم  بندے آپ نہیں بنتے اور خواہشات ہستیوں کے دور کی ہے۔ جب اندرہی خراب تو باہر اچھا کبھی نہیں ہو سکتا۔ آج وہ لیڈی آفیسر سیدہ نقوی نے جو واقعی بہادری کا مظاہر کیا ہے اور نہایت ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی کی ہے سیلیوٹ پیش کرتا ہوں لیکن کیا یہ اُس کی ڈیوٹی نہیں ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کرے۔ مطلب اگر سب لوگ اپنی ڈیوٹی ایسی ہی ایماندری سے کریں تو ہمارے لیے واقعی یہ کوئی اچنبے کی بات نہ ہو۔ پر ہماری گنگا الٹی بہتی ہے چونکہ ایماندار بندی ہی کبھی کبھار نظر آتا ہے اس لیے ہمارا ملک کا سارا میڈیا بھاگ بھاگ کر اس کے انٹر ویوز نہ کرے تو کیا کرے ۔ پر بات یہاں یہ ایمانداری کی قلت کا مطلب ہمارے معاشرے میں ایماندار ناپید ہیں۔ خدا کرے ہم بھی یورپ جیسے ہوجائیں جہاں ہمیں بے ایمان کو دیکھ کر حیرت ہو نہ کہ ایماندار کو دیکھ کر۔چلیں کوئی اور ایماندار ڈھونڈیں اور پھر اس کے انٹرویوز کریں۔پاکستان پائندہ باد۔

Leave a Comment

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *